Tuesday, 7 October 2014

Tanhai | Faiz Ahmad Faiz

تنہائی...

پھر کوئی آیا دل زار! نہیں کوئی نہیں ،
راہرو ہو گا، کہیں اور چلا جائے گا ،
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار ،
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ ،
سو گئی راستہ تک تک کے ہر ایک راہگزار ،
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ ،
گل کرو شمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ ،
اپنے بےخواب کواڑوں کو مقفل کر لو ،
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا !

- فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment