Tuesday 28 October 2014

Excerpts from Qatra Qatra Qulzam | Wasif Ali Wasif

جناب واصف علی واصف صاحب کی کتاب "قطرہ قطرہ قلزم" سے چند اقتسابات:

زندگی رونقوں میں گزرتی ہے اور راز تنہائیوں میں ملتے ہیں. راز بتاے نہیں جاتے، راز آگہی یا راز آشنائی کا راستہ دکھایا جاتا ہے.
انسان علم حاصل کرتا ہے، دانائی کا علم ... دانائی کتاب سے حاصل نہیں ہوتی، دانا کی زندگی کا علم دانائی نہیں، دانا کی زندگی کا عمل دانائی ہے، مثلا ریت کے تپتے ہوے صحرا میں عظیم انسان (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دیا ہوا خطبہ، دانائی کا شہکار خطبہ، اگر ہم کسی ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر پڑھیں تو ہمیں کتنا فیض ملے گا. عمل عمل کے تابح  نہ ہو تو علم علم کے مطابق نہیں رہتا.
... برے انسان کو ہر وقت برائی کا موقع مل جاتا ہے، اچھے کو اچھائی میسر آ ہی جاتی ہے ... غریبوں کی حالت بدلنے کا دعوی کرنے والے خود غریبی کے ذائقے سے ناآشنا ہوتے ہیں.
... آج ہم دیکھتے ہیں کہ سقراط کا علم جاننے والا سقراط نہیں بن سکتا ... آج کا انسان راز آشناؤں کو پڑھتا ہے، راز نہیں جانتا.
... لامحدود آرزوئیں، محدود زندگی کو عذاب بنا دیتی ہیں. آج کا عصری کرب یہی ہے کہ انسان کثیر المقاصد ہو کر رہ گیا ہے.
... کبھی کبھی نیکی بھی ایسے آتی ہے جیسے بارش ، کبھی کبھی برائی ایک راستے کی طرح پاؤں کے نیچے آ جاتی ہے ...
(مضمون: بات سے بات)

بے جان مال کی محبت، جان دار انسان کو اخلاقی قدروں سے محروم کر دیتی ہے. مال کی محبت حریص بناتی ہے اور حریص کی جیب بھر جائے تو بھی دل خالی رہتا ہے.
... کچھ لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں. صرف خدا سے اور بس! خدا کے بندوں سے نہیں. خدا کے بندوں سے محبت نہ کرنے والوں کو خدا کیسے پسند کر سکتا ہے. خدا کے حبیب (صلی اللہ علیہ وسلم) تو وہ ہیں جو مخلوق کے محب اور مخلوق کے محبوب ہیں، الله کی محبت کا راز انسان کی محبت میں ہے. الله معبود ہے، انسان محبوب. الله کی راہ انسانوں کی راہ ہے .. انعام یافتہ انسانوں کی راہ ...
(مضمون: محبوب)

کسی شے کو چھوٹا سمجھنے کے لئے ضروری ھے کہ اسے یا دور سے دیکھا جاۓ یا غرور سے دیکھا جاۓ ورنہ اگر اسے قریب سے دیکھا جاۓ تو وہی شے اپنے اندر سرمایہ گرانمایہ رکھتا ھے ... ذرے کا دل چیرا گیا تو کتنے آفتاب لرز گے ... اسی طرح قطرے کے اندر وسعت بے کراں ھے. وہ اپنے دل ھی دل میں خود کو قلزم ساز سمجتا ھے بلکہ قلزم نواز سمجھتا ھے. وہ سمجھتا ھے کہ اس کے دم سے کائنات کی زندگی ھے. ھر شے کی زندگی پانی سے ھے اور پانی کی اساس قطرہ ھے.
اسی طرح قلزم خود کو قطروں کا خالق و مالک سمجھتا ہے. وہ چاہے تو قطروں کو جدائی کے سفر پر روانہ کر دے اور چاہے تو انہیں وصال کی عطا کے لئے روبرو حاضر کر لے. بحر حال یہ قطرے اور قلزم کا کھیل ہے ...
(دیباچہ)

No comments:

Post a Comment