میں آئینہ تھا ، وہ میرا خیال رکھتی تھی ،
میں ٹوٹتا تھا تو چن کر سنبھال رکھتی تھی .
ہر ایک مسلۓ کا حل نکال رکھتی تھی ،
ذہین تھی مجھے حیرت میں ڈال رکھتی تھی .
میں جب بھی ترک تعلق کی بات کرتا تھا ،
وہ روکتی تھی مجھے ، کل پے ٹال رکھتی تھی .
وہ میرے درد کو چنتی تھی اپنی پوروں سے ،
وہ میرے واسطے خود کو نڈھال رکھتی تھی .
وہ منتظر میری رہتی تھی دھوپ میں ،
میں لوٹتا تھا تو چھاؤں نکال رکھتی تھی .
وہ ڈوبنے نہیں دیتی تھی دکھ کے دریا میں ،
میرے وجود کی ناؤ اچھال رکھتی تھی .
دعائیں اس کی بلائو کو روک لیتی تھیں ،
وہ میرے چار سو ہاتھوں کی ڈھال رکھتی تھی .
اک ایسی دھن کے نہیں پھر کبھی میں نے سنی ،
وہ منفرد سا ہنسی میں کمال رکھتی تھی .
اسے ندامتیں میری کہاں گوارہ تھیں ،
وہ میرے واسطے آسان سوال رکھتی تھی .
بچھڑ کے اس سے میں دنیا کی ٹھوکروں میں ہوں ،
وہ پاس تھی تو مجھے لازوال رکھتی تھی !
میں ٹوٹتا تھا تو چن کر سنبھال رکھتی تھی .
ہر ایک مسلۓ کا حل نکال رکھتی تھی ،
ذہین تھی مجھے حیرت میں ڈال رکھتی تھی .
میں جب بھی ترک تعلق کی بات کرتا تھا ،
وہ روکتی تھی مجھے ، کل پے ٹال رکھتی تھی .
وہ میرے درد کو چنتی تھی اپنی پوروں سے ،
وہ میرے واسطے خود کو نڈھال رکھتی تھی .
وہ منتظر میری رہتی تھی دھوپ میں ،
میں لوٹتا تھا تو چھاؤں نکال رکھتی تھی .
وہ ڈوبنے نہیں دیتی تھی دکھ کے دریا میں ،
میرے وجود کی ناؤ اچھال رکھتی تھی .
دعائیں اس کی بلائو کو روک لیتی تھیں ،
وہ میرے چار سو ہاتھوں کی ڈھال رکھتی تھی .
اک ایسی دھن کے نہیں پھر کبھی میں نے سنی ،
وہ منفرد سا ہنسی میں کمال رکھتی تھی .
اسے ندامتیں میری کہاں گوارہ تھیں ،
وہ میرے واسطے آسان سوال رکھتی تھی .
بچھڑ کے اس سے میں دنیا کی ٹھوکروں میں ہوں ،
وہ پاس تھی تو مجھے لازوال رکھتی تھی !
No comments:
Post a Comment