جناب واصف علی واصف کی تحریر "رفاقت" سے چند اقتسابات:
رفاقت کی تمنا سرشتِ آدم ہے۔ ... آسمانوں پر بھی انسان کو انسان
کی تمنا رہی اور زمین پر بھی انسان کو انسان کی طلب سے مفر ممکن نہیں۔ ...
ہماری ہر صلاحیت، رفاقت کی محتاج ہے۔ ...
ہماری سماعت آوازِ دوست کی منتظر رہتی ہے۔ ہماری نگاہ دوست کے چہرے سے خوراک لیتی
ہے، ہمارا چہرہ مرکزِ نگاہِ یار ہوتا ہے، ہمارے افکار دوست کو
روشنی دیتے ہیں اور ہم اس کی فکر سے پرورش پاتے ہیں۔ دل ہمارا ہوتا اور درد دوست کا۔ ہماری خوشیاں شرکتِ حبیب سے دوبالا ہوتی ہیں اور ہمارے غم، غمگسار کے تقرب سے کم ہوتے ہیں۔ ہمارا سفر ہمارے ہمسفر کی معیت سے بامعنی و پررونق ہوتا ہے۔ ... دوست سے گفتگو حکمت و دانائی کے رموز آشکار کرتی ہے۔ ہمارے ظاہر و باطن کا نکھار جمالِ ہم نشیں سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ ...
روشنی دیتے ہیں اور ہم اس کی فکر سے پرورش پاتے ہیں۔ دل ہمارا ہوتا اور درد دوست کا۔ ہماری خوشیاں شرکتِ حبیب سے دوبالا ہوتی ہیں اور ہمارے غم، غمگسار کے تقرب سے کم ہوتے ہیں۔ ہمارا سفر ہمارے ہمسفر کی معیت سے بامعنی و پررونق ہوتا ہے۔ ... دوست سے گفتگو حکمت و دانائی کے رموز آشکار کرتی ہے۔ ہمارے ظاہر و باطن کا نکھار جمالِ ہم نشیں سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ ...
وہ انسان جس نے رفیق سے وفا نہ کی، کسی سے وفا نہیں کرسکتا، نہ دین سے، نہ خدا سے، نہ خود اپنے آپ سے۔ عظیم انسان اپنے حبیب پر غیر متزلزل اعتماد کے سہارے عظیم ہوتے ہیں۔
انتخاب رفیق سے پہلے تحقیق کر لینا جائز ہے، لیکن کسی کو دوست کہہ لینے کے بعد اسے کسی آزمائش سے گزارنا بددیانتی ہے۔ دوست کے ساتھ صرف ایک ہی سلوک روا ہے اور وہ وفا ہے وفا کرنے والے کسی کی بے وفائی کا گلہ نہیں کرتے۔ اپنی وفا کا تذکرہ بھی وفا کے باب میں ابتدائے جفا ہے۔ ... رفاقتیں گردش حالات سے متاثر نہیں ہوتیں۔ ...
خو ش نصیب ہے وہ انسان جس کا ہمسفر اس کا ہم خیال ہو۔ ... پیغمبروں نے پسندیدہ رفاقتوں کی دعائیں فرمائیں، ... رفاقتوں کے فیض اعتماد کے دم سے ہیں، بداعتماد انسان نہ کسی کا رفیق ہوتا ہے، نہ اس کا کوئی حبیب ہوتا ہے۔ بداعتمادی کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ انسان کو ایسا کوئی انسان نظر نہیں آتا جس کے تقرب کی وہ خواہش کرے اور نہ وہ خود کو کسی کے تقرب کا اہل سمجھتا ہے۔ تنہائی کی مسافر بیمار روحیں اذیت کی منزلیں طے کرتی ہیں۔
رفاقت زندگی ہے، فرقت موت ہے۔
آج کے مشینی دور نے انسان کو انسان سے دور کر دیا ہے۔ رفاقتِ بشری سے محروم انسان مال اور اشیاء کی محبت میں گرفتار ہے۔ وہ نظریات کا قائل ہے، انسان کا قائل نہیں۔ آج کا انسان انسانوں سے بیزار ہے۔ وہ خود سے بیزار ہے، وہ غیر فطری زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس پر کربناک تنہائی کا عذاب نازل ہوچکا ہے۔ کوئی کسی سے ہمدردی نہیں رکھتا۔ کوئی کسی کو نہیں پہچانتا۔ کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔
آج انسانوں کی بھیڑ میں ہر انسان اکیلا ہے، ایسے ہی جیسے ایک وسیع سمندر میں بے شمار جزیرے، ایک دوسرے کے آس پاس، لیکن ایک دوسرے سے ناشناس۔ ... اینٹ کا اینٹ سے ربط ختم ہو جائے تو دیواریں اپنے بوجھ سے گرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ... سنگت نہ ہو تو اس میلے میں ہر انسان اکیلا ہے۔ ...
- واصف علی واصف
کتاب: دل دریا سمندر ، مضمون: رفاقت
No comments:
Post a Comment