کوئی سخن برائے قوافی نہیں کہا ،
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا ،
ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے ،
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں کہا ،
آشوبِ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی ،
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں کہا !
ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی ،
پھر بھی یہی گُماں ہے کہ کافی نہیں کہا ،
بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس ،
ہم نے کبھی شراب کو شافی نہیں کہا ،
پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر ،
پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا ،
اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فراز ،
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا !
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا ،
ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے ،
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں کہا ،
آشوبِ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی ،
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں کہا !
ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی ،
پھر بھی یہی گُماں ہے کہ کافی نہیں کہا ،
بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس ،
ہم نے کبھی شراب کو شافی نہیں کہا ،
پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر ،
پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا ،
اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فراز ،
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا !
- احمد فراز
کتاب "اے عشق جنوں پیشہ" سے انتخاب
No comments:
Post a Comment