Friday 3 January 2014

Koi Sukhan Barayay Qawafi Nahi Kaha | Ahmad Faraz

کوئی سخن برائے قوافی نہیں ‌کہا ،
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں ‌کہا ،

ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے ،
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں‌ کہا ،


آشوبِ‌ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی ،
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں ‌کہا !


ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی ،
پھر بھی یہی گُماں‌ ہے کہ کافی نہیں کہا ،

بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس ،
ہم نے کبھی شراب کو شافی نہیں کہا ،

پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر ،
پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا ،

اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فراز ،
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا​ !

- احمد فراز
 کتاب "اے عشق جنوں پیشہ" سے انتخاب

No comments:

Post a Comment