جناب واصف علی واصف کی تحریر "ظلم" سے چند اقتسابات:
ظلم کا تعلق مظلوم کے احساس سے ہے، کسی ظالم کا کوئی عمل اس وقت تک ظلم نہیں کہلاۓ گا، جب تک مظلوم اس عمل سے پریشان نہ ہو۔ دنیا میں ہونے والے بیشتر مظالم مظلوم کی پسند کا حصہ بنا دئیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو مظلوم اس ظلم کو برداشت کرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھ لیتا ہے۔
ظلم کا تعلق مظلوم کے احساس سے ہے، کسی ظالم کا کوئی عمل اس وقت تک ظلم نہیں کہلاۓ گا، جب تک مظلوم اس عمل سے پریشان نہ ہو۔ دنیا میں ہونے والے بیشتر مظالم مظلوم کی پسند کا حصہ بنا دئیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو مظلوم اس ظلم کو برداشت کرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھ لیتا ہے۔
ظالم کا سب سے بڑا ظلم یہی ہے کہ وہ مظلوم کو ظلم سہنے اور ظلم میں رہنے کی تعلیم دے چکا ہوتا ہے ... غریب کو صبر کی تلقین کرنے والا، خود امیر رہنا پسند کرتا ہے، ظلم ہوتا رہتا ہے اور کسی کو خبر تو کیا، احساس تک نہیں ہوتا ! ... فارغ التحصیل ہو کر غریبوں کے بچے کسی مسجد کے امام بن کر اس کے حجرے میں زندگی بسر کرتے ہیں اور امیروں کے بچے افسر بن کر حکومت کرتے ہیں. ظلم ہوتا
رہتا ہے اور کسی کو محسوس نہیں ہوتا ... ظالم اپنے ظلم کو برقرار رکھنے کے لئے بڑے ، بڑے روپ دھارتا ہے. کبھی مسیحائی کا روپ ، کبھی رہنمائی کا بہروپ ، کبھی آشنائی کا انداز ، کبھی محبت کا طلسم ، کبھی تعریف کرنے والے کی شکل میں ... ظلم بہرحال جاری رہتا ہے . آج مسیحائی کی وبا پھیل چکی ہے، ہر نااہل کو زعم آگہی ہے، قوم پر انتشار نازل کرنے والے مسیحاؤں کی کمی نہیں ... سیاست کے میدان میں رہنما اپنے انا کے سفر میں بڑے بڑے ظلم کرتے ہیں ... ایک ان پڑھ چھابڑی والے کو سیاست کے میدان کا شہسوار ہونے کی غلط فہمی عطا کر دی جاتی ہے . وہ بیچارہ ظلم برداشت کرتا ہے اور سمجھتا ہے کے اسے بین الاقوامی سیاست کا مکمل شعور مل چکا ہے ... ظلم جاری رہتا ہے اور مظلوم کو احساس تک نہیں ہوتا ۔
کچھ علماۓ دین زندگی کی بے معنویت کو اس حد تک بیان کرتے ہیں کہ محنت ، کوشش ، مجاہدہ اور سعی کی لگن چھن جاتی ہے ... تعلیم حاصل ہوتی ہے اور ضرورت پوری نہیں ہوتی... روزگار تعلیم سے نہیں تعلقات سے نصیب ہوتا ہے... اس ظلم کی کسی کو خبر نہیں ہوتی...
بہت خطرناک ظالم زندگی میں دوست بن کر آتا ہے. ایسے ظالم سے بچنا بہت مشکل ہے ، جس کے پاس محبت کی تلوار ہو، وہ معصوم دلوں کو محبت میں گرفتار کرتا ہے ، ان سے کام لیتا ہے، کام نکالتا ہے اور پھر اک نامعلوم موڑ پر انہیں حوادث زمانہ کے حوالے کر کے شیطان کی طرح مسکراتا ہوا رخصت ہو جاتا ہے. ایسے ظالم کے لئے بددعا بھی نہیں کی جا سکتی ، وہ اپنا تھا ، اپنا بنا ہوا تھا. اس کے پرانے خطوط ابھی محفوظ ہوتے ہیں اور وہ ہر اخلاق کے قوانین کو بالاۓ طاق رکھتا ہوا ، جھٹک کر چلا جاتا ہے. ہم جس کی تعریف کر چکے ہوے ہوں ، اس کے ظلم کا بیان کس منہ سے کریں ، بس ظلم ہو گیا، لیکن مظلوم ہمیشہ کے لئے خاموش رہ گیا !!!
دراصل کسی شے سے خلاف فطرت کام لینا ظلم ہے، جو شے جس کام کے لیے تخلیق کی گی اس سے وہی کام لینا چاہیے۔ اس کے بر عکس ظلم ہے۔ کسی انسان سے اس کے مزاج کے خلاف کام لینا ظلم ہے،جبر ہے، اس سے انسان کے اندر ایک حبس کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے،اس پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور پھر یہ جمود اندر ہی اندر لاوے کی طرح کھولتا ہےاور کسی نا معلوم لمحے میں ابل کر وہ لاوا باہر آ جاتا یے اور ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوءے تباہ کر دیتا ہے۔
کسی انسان میں وسوسہ پیدا کرنا بھی ظلم ہے، قوم کو تذبذب میں گرفتار کرنا بھی ظلم ہے. کسی راہی کو سفر کے دوران ، اس کی مسافرت سے بیزار کرنا ظلم ہے. آدھا راستہ طے کرنے کے بعد یہ سوچنا کہ ہمیں کس سفر پر روانہ ہونا ہے ، ظلم ہے. غریب کی عزت نفس کو غریب سمجھنا ظلم ہے . ظلم کی صورتیں بے شمار ہیں . مظلوم کی صورت ایک ہی ہے ... غریب ، سادہ ، معصوم ، شریف النفس ، سادہ لوح ، جلد مان لینے والا ...
مظلوم ظلم کو مقدر سمجھتا ہے اور ظالم اپنی دانائی!
ظلم کا پہیہ اس وقت تک جام نہیں ہوتا جب تک معاف کرنا اور معافی مانگنے کا حوصلہ اور شعور پیدا نہ ہو۔ بدلہ
لینے کی تمنا ظلم کی اساس ہے، معاف کر دینے کی آرزو،ظلم کا خاتمہ کرنے کے
لیے ضروری ہے۔ظلم توڑنے والے پرانی باتوں کو چھوڑنے والے ہوتے ہیں۔ ظلم کے
ساتھ، ظالم کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے؟
پیغمبروں کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیالسلام کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا بدلہ یہی تھا، کہ جاوُ کہ آج کے دن کے لیے تمہارے کوئی سزا نہیں ہے۔ فتح مکہ کے بعد آپ کے پرانے مخالفین کے لیے یہی ارشاد تھا کہ جاوُ تم سب کے لیے آج کوئی سزا نہیں۔
پیغمبروں کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیالسلام کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا بدلہ یہی تھا، کہ جاوُ کہ آج کے دن کے لیے تمہارے کوئی سزا نہیں ہے۔ فتح مکہ کے بعد آپ کے پرانے مخالفین کے لیے یہی ارشاد تھا کہ جاوُ تم سب کے لیے آج کوئی سزا نہیں۔
اگر معاشرے میں معافی مانگنے اور معاف کرنے کا عمل شروع ہو جاۓ تو ظلم رک جاتا ہے۔ خود پسندی ترک ہو جاۓ تو ظلم رک جاتا ہے۔ انا کا سفر ختم ہو جاۓ تو ظلم رک جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو اللہ سے معافی کا خواستگار ہے، اسے سب کو معاف کر دینا چاہیے۔ جس نے معاف کیا وہ معاف کر دیا جاۓ گا۔ دوسروں پر احسان کرنے سے ظلم کی یاد ختم ہو جاتی ہے۔ حق والے کا حق ادا کرو۔ بلکہ اسے حق سے بھی ماسوا دو۔ بس اتنے سے عمل سے ظلم ختم ہو جاۓ گا۔ جس معاشرے میں مظلوم اور محروم نہ ہوں۔ وہی معاشرہ فلاحی ہے۔
- واصف علی واصف
کتاب: قطرہ قطرہ قلزم ، مضمون: ظلم
No comments:
Post a Comment